جلوۂ رنگ ونور

 


 

جلوۂ رنگ ونور

ایک سچے عشق کی درد اور مٹھاس بھری سچی داستان

حضرت مولانا طلحہ السیف                        

مدیر القلم

استاذ الحدیث جامعۃ الصابر، بہاولپور

ایک مسودہ کئی ہفتوں سے میرے سرہانے رکھا ہے۔ اب تک کئی بار اُس کا مطالعہ کرچکا ہوں۔ مجھے اُس کے الفاظ سے، اسلوب سے اور مضامین سے قدیم اور گہری شناسائی ہے لیکن امتحان یہ درپیش ہے کہ مجھے اس پر کچھ لکھنا ہے اور میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ع

اے دِل مگر یہ وقت بڑے اِبتلاء کا ہے

کتنی بار تحریر شروع ہوئی اور پھرنا مکمل چاک کرکے ٹوکری کی نذر کردی۔کیا ہر لکھنے والے کو جب اپنی محبت، اپنے عشق اور اپنے دیرینہ تعلق کی داستان لکھنی ہوتو اسے ایسی ہی کیفیات کا سامنا ہوتا ہے؟

’’رنگ ونور‘‘ کے ساتھ میرے تعلق کی داستان کچھ ایسی ہی ہے۔ میں قلم قبیلے میں ایک اجنبی کے طور پر آیا تھا۔ نہ ارادہ تھا اور نہ صلاحیت کہ یہاں قیام پذیر ہوسکوں۔ اس خدمت پر رکھ لیا گیا کہ ’’رنگ ونور‘‘ آیا کرے تو اس کے پروف کی تصحیح کردیا کروں اور بس… یوں محبت کی اس داستان کا آغاز ہوا۔ ’’رنگ ونور‘‘ آتا ،اس کی کمپوزنگ ہوتی اور میں اسے دو تین بار پڑھ کر غلطیاں درست کرادیا کرتا اوریہ قارئین تک پہنچ جاتا۔ ’’القلم‘‘ اخبار میں یہ مضمون بنیادی حیثیت سے شائع ہوتا اور اس کے ساتھ کئی دیگر موتی بھی جگمگاتے۔ بلکہ اگر یوں کہہ دوں کہ ’’القلم‘‘ کی روح ’’رنگ ونور‘‘ ہی تھا۔’’ رنگ ونور‘‘ القلم کے لئے نہیں آتا تھا القلم ’’رنگ ونور‘‘ کے لئے شائع ہوتا تھا تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ شروع شروع میں اس کام کا ایک تشکیل اور ڈیوٹی کے پر طور پر آغاز ہوا لیکن رفتہ رفتہ یہ عادت اور پھر محبت بن گیا اور پھر اس محبوب نے مجھے کیا کچھ دیا ،کیا کچھ سکھایا، میری کتنی جہالتوں کودور کیا، میری کتنی غلطیوں کو سدھارا، میرے نظریات کی کس طرح اصلاح کی، مجھے پڑھنے اور لکھنے کے شوق سے کیسا نوازہ، میرے زبان وبیان کی کس طرح درستگی کی۔

 یہ پندرہ برس کا قصہ ہے دوچار دِنوں کی بات نہیں

Comments